Peshawar

6/recent/ticker-posts

سیٹھی ہاؤس پشاور ایک نایاب تعمیراتی عجوبہ

پشاور کے ’’گھنٹہ گھر بازار‘‘ سے چند قدم آگے ’’محلہ سیٹھیاں‘‘ ہے جہاں کی عمارات قدیم طرز تعمیر کے حوالے سے ایک تہذیبی اور تاریخی اہمیت کی حامل ہیں۔ محلہ سیٹھیاں کی وجہ تسیمہ قیام پاکستان سے قبل یہاں آ کر آباد ہونے والے سیٹھی خاندان ہے۔ اپنے عہد کے امیر ترین سیٹھیوں نے پشاور میں اپنی رہائش گاہوں کی تعمیر کے لیے دور دراز ریاستوں سے نہ صرف ماہر کاریگروں کو بلوایا بلکہ انہوں نے اپنی رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور وسط ایشیائی ریاستوں سے آرائش سامان بھی منگوایا۔ ’’سیٹھی خاندان‘‘ کی بنائی ہوئی عمارتیں دیکھنے کے لائق ہیں۔

ان گھروں کی تعمیر میں لکڑی کا کام دو طرح کا ہے ایک میں لکڑی پر کندہ گل بوٹے ہیں اور نہایت ہی نفیس آرپار کی جالیاں ہیں جبکہ دوسری قسم میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جوڑ کر دروازوں اور چوکھٹوں کو سجایا گیا ہے ان گھروں میں چار پائیوں کے پایوں سے لے کر نعمت خانے (جالی کی بنی ہوئی الماری جو باورچی خانے میں استعمال ہوتی ہے) تک اور گھروں کے صدر دروازے، روشن دان اور پنجالیوں، اور چھت پر لگے ہوئے شہتیروں، چینی خانوں کے فریموں اور دیواروں میں لگی ہوئی الماریوں سمیت ایک ایک انچ بڑی مہارت اور کمال فن سے تراشی گئی ہے۔ سیٹھیوں کے گھروں کی ایک اور خاص بات ان مکانات کے وسط میں بنے ہوئے کشادہ صحن ہیں ان گھروں کی تعمیر اور اینٹوں کی چنائی وغیرہ کے لیے جو مسالا استعمال کیا گیا ہے اسے ’’گچ‘‘ کہتے ہیں جو لاکھ اور چونے کا آمیزہ ہوتا ہے اور اس میں روئی یا پٹ سن کا ریشہ بھی ملایا جاتا ہے۔ 

پشاور کی قدیم تعمیرات میں دو طرح کی اینٹوں کے نمونے ملتے ہیں ایک قسم کو’’بادشاہی اینٹ‘‘ کہا جاتا ہے جو ایک سے ڈیڑھ فٹ لمبی ہوتی ہے عام طور پر ان اینٹوں کا استعمال بڑی دیواروں کی چنائی میں ملتا ہے دوسری قسم کی اینٹ کو ’’وزیری‘‘ کہا جاتا ہے جو زیادہ سے زیادہ چھ انچ لمبی، تین انچ چوڑی اور اس کی موٹائی ایک سے ڈیڑھ انچ تک ہوتی ہے یہ اینٹ نفیس کا موں کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ سیٹھی گھروں میں یہی وزیری اینٹ کا استعمال بہ کثرت کیا گیا ہے۔ جو اس بات کی بھی دلیل ہے کہ ان گھروں کی تعمیر میں کس قدر نفاست کا خیال رکھا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ 1880ء سے 1901ء کے درمیان تعمیر ہونے والے مکانات کی شان و شوکت اور رعب و دبدبہ آج بھی ’’محلہ سیٹھیاں‘‘ سے گزرنے والوں کے قدم تھام لیتا ہے۔ 

پشاور کے امیر ترین خاندان’’سیٹھیوں‘‘ نے اپنی کثیر مال و دولت صرف اپنی ذاتی رہائش گاہوں کی تعمیر پر ہی صرف نہیں کی بلکہ انہوں نے پشاور میں کئی مساجد کی تزئین و آرائش اور ضروری تعمیر و مرمت کے لیے بھی وقتاً فوقتاً مالی معاونت کی تھی۔ جس کا ایک نمونہ محلہ سیٹھیاں میں موجود پانچ سو نمازیوں کے لیے بنائی جانے والی مسجد سیٹھیاں ہے علاوہ ازیں انقلاب روس سے پہلے سیٹھی کریم بخش نے پشاور سے چند میل کے فاصلے پر ایک باغ تعمیر کروایا تھا اب اس باغ کے آثار نہیں ملتے لیکن آج بھی اس علاقے میں اس باغ کے حوالے سے لوگوں کی یاداشتیں اس کی شان و شوکت کا نقشہ کھینچتی ہیں۔ سیٹھی خاندان کے عمدہ ذوق تعمیر کا منہ بولتا ثبوت یہ عمارتیں آج کے پشاور کی پہچان ہیں۔

جس کی تحفظ اور بقاء کے لیے حکومتی سطح پر کی جانے والی کوششوں میں تیزی لانے کی ضرورت ہے لکڑی پر بنے بیل بوٹے اور دیواروں پر کاشی گری کے نمونوں سے گزر کر دروازوں اور کھڑکیوں میں لگے رنگ برنگے شیشوں سے منعکس ہوتی ہوئی روشن صبح پشاور کے نور کو رنگوں میں ڈھال کر مزید خوبصورت کر دیتی ہے کیا ہی اچھا ہو کہ پشاور کی چمک دمک اور یہاں کے باسیوں کے ذوق کی عکاسی کرنے والے ان شاہ کاروں کو موسمی شدتوں سے بچانے کے ساتھ ساتھ دیگر سنجیدہ اقدامات بھی کیے جائیں جو نہ صرف سیاحت کے نکتہ نگاہ سے لازمی ہیں بلکہ ’’اصل پشاور‘‘ کو اپنے ماضی سے قائم رشتوں کے لیے بھی تقویت کا باعث بن سکتے ہیں۔ ایسا اس لیے ضروری ہے کہ ملک سے محبت کا فروغ اپنی تاریخ و ثقافت اور تہذیب و تمدن سے جڑی محبتوں کے استحکام کے بناء ناممکن ہے۔ 

شیخ نوید اسلم
(’’پاکستان کے آثارِ قدیمہ ‘‘سے ماخوذ)
 

Post a Comment

0 Comments