Peshawar

6/recent/ticker-posts

پشاور میں جمہوریت کا گلدستہ

مجھے جو نظر آیا ہے، وہ لکھنے بیٹھا ہوں۔
پشاور کے شہیدوں کی مرکزی تقریب میں منتخب جمہوری قیادت مکمل طور پر حاوی تھی، مہمان خصوصی ملک کے وزیر اعظم تھے اور آزاد کشمیر سمیت چاروں صوبوں کے وزرائے اعلی اور بعض گورنر بھی ٹی وی کیمروں نے دکھائے ۔

جس شخص کو ملک میں بہت زیادہ حاوی خیال کیاجاتا تھا، یعنی آرمی چیف جنرل راحیل شریف وہ اپنی کرسی پر بیٹھے رہے جبکہ چیئر مین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کو ایک مرتبہ انعا مات اور تمغوں کی تقسیم کے لئے سٹیج پر بلایا گیا۔
تقریب کے ماحول سے ہر گز یہ اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ یہ کوئی فوجی تقریب ہے۔
عام جمہوری مملکت میں یہی ہوتا ہے۔

مگرپاکستان میں یہ ایک تبدیلی ہے اور عمران خان جو کہا کرتے ہیں کہ وہ خیبر پی کے میں تبدیلی لا چکے ہیں، ان کی بات اس حد تک درست ثابت ہو گئی کہ اے پی ایس کے شہدا کی برسی واقعی ایک تبدیلی کا اشارہ دے رہی ہے۔

اس تبدیلی کے اشارے کراچی آپریشن کے حال اور مستقبل سے بھی مل رہے ہیں۔زرداری صاحب فوج کو کھری کھری سناکر ملک سے باہر چلے گئے مگر کائرہ کا کہنا ہے کہ وہ ستائیس دسمبر کو آئیں گے ا ور انہیں کوئی روک نہیں سکتا، سندھ میں رینجرز کو اختیارات د ینے کے لئے ریلیاں نکل رہی ہیں ، کائرہ نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس کے بر عکس مطالبے میں ریلیاں نکلنا شروع ہو گئیں توکیا بنے گا۔
وزیر داخلہ نے دو ایک تند و تیز بیانات دیئے، یہ دلیری اور بہادری کا مظاہرہ تھا اور وفاق کی روح کے عین مطابق مگر جواب میں خورشید شاہ ا ور چانڈیو نے کہا کہ جوکرناہے کر لو، جوفلم چلانی ہے چلا لو۔ جو وزیر اعلی رینجرز کو اختیارات دینے کے لئے تیار نہیںہو رہا، اسے عزت اور وقار کے ساتھ اے پی ایس کی تقریب میںمدعو کیا گیا اور ان کے دست مبارک سے شہدا کے لواحقین کو تمغے دلوائے گئے۔
کوئی ایک ستم ظریفی ہو تو اس کا ذکر کروں ، یہاں تو پانسہ ہی پلٹا نظر آ رہا ہے۔
شاید یہ جمہوریت کے استحکام کے لئے ضروری ہو۔

مگر بڑا سوال یہ ہے کہ فوج کو پیچھے دھکیلنے سے کیا دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے، کیا پاکستانی پولیس ، پیرس، لندن،میڈرڈ ،برسلز، نیو یارک اور سان فرانسسکو کی پولیس کی طرح تربیت یافتہ ہے۔ اگر ہے تو کیا کہنے۔
جمہوریت میں فوج کا ادارہ منتخب حکومت کے ماتحت ہوتا ہے مگر پاکستان میں ایسی روایت کی داغ بیل ابھی پڑی نہیں مگر یہ نسخہ آزمانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کوششیں پہلے بھی ہوئیں مگر سول اور ملٹری تصادم کا جونتیجہ نکلتا ہے ، وہی نکلا، صرف ایک بار بھٹو نے عیاری سے ملک کے آرمی چیف سے استعفیٰ لے لیا تھا۔

مجھے ہرگز خوشی نہیں کہ ملک پھر سول ملٹری تصادم کی راہ پہ چل نکلے، ماضی میں ایسا ہوتا رہا ہے مگر ملک پٹری سے اتر جاتا رہا۔ فوج ملک چلانے کی مہارت نہیں دکھا سکی ، ویسے سول بھی ماشااللہ اس فن سے نا آشنا ہے۔ تو پھر اداروں کے مابین تصادم کی ضرورت کیا ہے۔

سنتے تو یہی آئے ہیں کہ فوج نے ملک کی کسی سول حکومت کو ایٹمی پروگرام کے قریب تک نہیں پھٹکنے دیا، ٹھیک سناہو گا مگر اب ٹی وی کیمروں کے سامنے ایک شخص وزیر اعظم کے پہلو میں ایک باکس لئے کھڑا ہوتا ہے، شاید یہ وہی باکس ہے جس میں ایٹمی بٹن ہے، اگر یہ ہو گیا ہے تو سبحان اللہ !!
پشاور کی اس تقریب میں کیا آرمی چیف کی موجودگی محض پروٹوکول کا تقاضہ تھی،ویسے ضروری تو نہیں کہ جہاں کہیں وزیر اعظم جائیں ، وہاں لازمی طور پر آرمی چیف بھی جائیں۔ ان کے الگ الگ پروگرام جاری رہتے ہیں۔ مگر پشاور کی تقریب ہر لحاظ سے فوجی تقریب تھی ، اس میں وزیراعظم آئے، بڑی اچھی بات ہے، سارے وزرائے اعلی آئے، یہ ا ور بھی اچھی بات ہے کہ جب بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں تو سول ا ور فوجی قیادت ایک خوشگوار ماحول میں اکٹھے دکھائی دی۔

کچھ لوگوں کو یہ منظر دیکھ کر ضرورت سے زیادہ طمانیت کا احساس ہو ا ہو گا اور میری طرح کے کچھ لوگوں کے کان بھی کھڑے ہوئے ہوں گے کہ سول نے ملٹری پر حاوی ہونے میں کامیابی حاصل کر لی۔
یقین مانیے میرے ذہن کو ہر گز کوئی شرارت نہیں سوجھی، میںنے تو ایک تبدیلی دیکھی ہے اور بس اس کا نقشہ کھینچ دیا ہے۔

مجھے یہ تبدیلی کچھ عرصے سے رینگتی نظر آ رہی ہے، سیلاب ہو یا زلزلہ یا کوئی اور قدرتی آفت، اس میں فوج ہی ریسکیو اور امداد کی فراہمی میں پیش پیش نظرا ٓتی ہے کیونکہ اس کے پاس اس کی تربیت بھی ہوتی ہے اورنقل وحمل کے لئے ضروری سامان بھی۔ مگر اب کے زلزلہ آیا تو پہلے روز آرمی چیف تیزی سے پشاور پہنچے ، انہوںنے یہ حکم بھی جاری کیا کہ بالائی کمان کے احکامات کا انتظار کئے بغیرامدادی سرگرمیاں شروع کر دی جائیں، اگلے روز وزیر اعظم لندن سے ملک واپس آئے اوراس کے بعد زلزلے کی ہر سرگرمی میں وہی پیش پیش رہے، فوج پیچھے چلی گئی۔یہ کوئی نہیں جانتا کہ زلزلہ زدگان کی حالت بدلی یا نہیں۔

اب پشاور اسکول کی برسی کا موقع آیا تو بھی انشی ایٹو وزیر اعظم کے ہاتھ میں تھا۔ انہوںنے ایک خطیررقم لواحقین کے لئے منظور کی، آرمی اسکول کو یونیورسٹی کا درجہ دیا اور اسلام آباد کے تمام تعلیمی اداروں کے نام بدل کر پشاور کے شہدا کے نام پر رکھ دیئے گئے۔ ٹی وی ٹکروں میں نئے ناموں کا اعلان کیا جا رپا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ ا قدام انتہائی لائق تحسین ہے۔ اگر وہ تمام صوبوں کو بھی ہدائیت کریں کہ وہ بھی اپنے ہاں کے تعلیمی اداروں کے نام اے پی ا یس کے معصوم شہدا کے ناموں پر رکھ دیں تو یہ شہید ہمیشہ کے لئے زندہ و تابندہ رہیں گے۔ ہمارا ایمان تو یہ ہے کہ شہید ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔ لیکن ان کی یاد کو بڑھاو ادینے کے لئے اگر کچھ اقدامات کر لئے جائیں تو یہ ہمارے ایمان کے عین مطابق ہو گا۔

حکومت کے اس اقدام کو بھی سراہا جائے گا کہ اس نے شہید طالب علموں سے اظہار یک جہتی کے لئے پورے ملک کے تعلیمی اداروں میں تعطیل کا اعلان کر دیا، پہلے یہ تعطیل صرف صوبہ خیبر پی کے تک محدود تھی۔ اس اقدام نے شہیدوں کی روح کو سکون بخشا ہو گا اور ان کے لواحقین کو بھی احساس ہوا ہو گا کہ قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔

مجموعی طور پر یہ تقریب قومی یک جہتی کا ایک مثالی نمونہ تھی اور اگر آرمی چیف نے بھی اسی قومی یگانگت کا ساتھ دیا ہے تو ان کی توصیف بھی کی جانی چاہئے کہ انہوںنے کسی انا کا مظاہرہ نہیں کیا ، میراخیال ہے کہ انہوںنے بڑے دل کا مظاہرہ کیا ہے۔

میں جمہوریت کی بالا دستی کا حامی ہوں مگر اس کے ساتھ ساتھ فوج جیسے
 ا دارے کے وقار کو بھی سر بلند دیکھنا چاہتا ہوں، میری رائے ہے کہ حکومت اور فوج کسی مقابلے کی دوڑ میں شریک نہ ہوں، اپنے اپنے دائرے میں مکمل  سرگرم 
عمل رہیں اور ایک دوسرے کی طاقت بنیں۔اس سے ملک طاقتور ہو گا۔

   اسد اللہ غالب 

Post a Comment

0 Comments