آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہمارا کالم؟ اور اتنا گاڑھا عنوان؟ تو ابھی سے وضاحت کر دیں کہ یہ ہمارے کالم کا نہیں بلکہ ایک مذاکرے کا موضوع ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہم گاڑھا کالم لکھ نہیں سکتے۔ قسم ہے اپنے سادہ دل پڑھنے والوں کی کہ اگر ٹھان لیں تو اس سے بھی بدرجہا زیادہ گاڑھا کالم لکھ ماریں، ایسے کتنے ہی موضوعات ہیں جسے اسرائیل کی بدمعاشیاں، امریکا کی مہربانیاں اور نامہربانیاں، بھارت نریندر مودیاں اور پھر زلزلہ زدگان، سیلاب زدگان اور لیڈر زدگان کے موضوعات ہیں، مطلب یہ کہ
جانتا ہوں ثواب طاعت و زہد
پر طبیعت ادھر نہیں آتی
جس مذاکرے کا ہم ذکر کر رہے ہیں اور جس کا یہ عنوان ہے، اس کا بندوبست ایک ایسے مخبوط الحواس بندے نے کیا تھا جسے یہ غلط فہمی ہے کہ پاکستان میں کوئی ’’سننے والا‘‘ بھی ہے حالانکہ ۔؎ وہ جو کرتے تھے دوائے دل دکان اپنی بڑھا گئے ۔ اب تو صرف بولنے ہی بولنے والے باقی رہ گئے ہیں، وہ بھی نقارہ ٹائپ کے، اس میں بے چارے طوطے کی کیا بساط؟ اور طوطا بھی وہ جو،
از مہرتا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کوشش جہت سے مقابل ہے آئینہ
’’اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں‘‘ کو باقاعدہ رجسٹر کرنے کے لیے فصیح الدین نے ایک اور دیوانگی یہ کی ہوئی ہے کہ کتاب کا نام لیتا ہے اس زمانے میں، بڑے جتن کر کے اس نے ایک بڑی زبردست لائبریری قائم کی ہوئی ہے۔ نام اس کا ریسرچ لائبریری ہے اور علم و تعلیم کے ہر شعبے سے وہ کتابیں جمع کر رکھی ہے جو کسی بھی قسم کی ریسرچ سے متعلق ہو اور یہ سب کچھ اس نے اپنے پلے سے ۔
گاڑی اور اپنی بیوی کے گہنے بیچ کر کیا ہے نہ کسی فرد کی مدد لی ہے نہ کسی این جی او کا احسان اٹھایا ہے اور نہ کسی حکومتی فرد یا ادارے کا تعاون حاصل ہے البتہ در در پھر کر دوستوں سے کتابیں مانگنے کا کام کرتا ہے چنانچہ تھوڑے عرصے میں ایک اچھی خاصی لائبریری کھڑی ہو گئی جو نایاب کتابوں اور پرانے رسالوں کی فائلوں سے بھری ہوئی اور اسی لائبریری میں ایک ہال اپنی دوسری دیوانگی کے لیے بھی رکھا ہوا ہے یعنی مذاکرے مباحثے اور علمی ادبی تقریبات ۔ مذکورہ بالا عنوان سے مذاکرے کا اہتمام تو اچھی بات ہے لیکن آج کل ہمیں اس قسم کی ’’اچھی باتوں‘‘ سے کچھ الرجی سی ہو گئی کہ جہاں
نشتند و گفتند و برخواستند
کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا لوگ آتے ہیں اور اپنی بولیاں ’’بول‘‘ کر اور پھر اپنی ہی بولیاں ’’بھول‘‘ کر چلے جاتے ہیں کیوں کہ پاکستان میں ہر طرف آج کل یہی ’’کہنے‘‘ کا کاروبار روبہ ترقی ہے جب کہ ’’سننے‘‘ کا کسی کے لیے کسی کے پاس نہ وقت ہے نہ کان ۔ بلکہ ہمیں تو ایسا لگتا ہے جیسے پاکستان میں صرف وہی لوگ رہتے ہیں ۔
جن کی زبان ہوتی ہے لیکن کان نہیں ہوتے ہیں ،کسی کسی کے اگر ہوں بھی تو ان کے درمیان اتنا بڑا سوراخ ہوتا ہے کہ بات تو کیا پتھر بھی مارو تو سیدھا دوسری طرف نکل جاتا ہے، لیکن چونکہ ہمیں فصیح الدین کی دیوانگی اچھی لگتی ہے اس لیے جانا ہی پڑا، پہنچنے پر پتہ چلا کہ مذاکرے کا مہمان خصوصی صوبے کا وزیر خزانہ ہے، خزانے کا نام سنتے ہی ہمارے دل میں کچھ کچھ ہونے لگا، پوچھا صرف وزیر ہیں یا ان کے ساتھ خزانہ بھی ہے اور وہ انھوں نے سن لیا کیوں کہ ہم ان کو پہلے سے جانتے بھی نہیں تھے اور وزیروں والی کوئی بات بھی ان میں نہیں تھی بھلا وقت پر آنے والا بھی کوئی ’’وزیر‘‘ ہو سکتا ہے اور جب مہمان خصوصی بھی ہو ۔
ہم نے تو ہمیشہ دیکھا ہے کہ مہمان خصوصی کی صرف ایک ہی خصوصیت ہوتی ہے دیر سے آنا اور جلدی سے جانا ۔ لیکن جناب مظفر سید ایڈووکیٹ شاید تازہ واردان بساط وزارت ہیں، اس لیے ابھی وزارت کے پورے طور طریقے سیکھے ہوئے نہیں اور یہ اچھا ہے کہ نو سکھے تھے ورنہ ایسی غریب غربا تقریب میں کیوں آتے، مذاکرہ شروع ہو گیا، عنوان تو آپ کو پتہ ہے ۔ پختون قیادت، توقعات اور چیلنجز‘‘ کافی اچھے اچھے بولنے والے ۔ موضوع پر بولے اور اچھا بولے ۔ جس کا نچوڑ یہ تھا کہ پختون قیادت اس وقت بالکل بھی موجود نہیں ہے، چھوٹی دکانیں ہیں، کھوکھے ہیں اور ریڑھیاں چھابڑیاں ہیں جن پر اپنا اپنا ہوم میڈ مال طرح طرح کے رنگین کاغذوں میں لپیٹ کر ڈالا ہوا ہے،
تعویذ ہو گنڈہ کہ دعا بیچ رہے ہیں
جن کو نہ ملا کچھ وہ خدا بیچ رہے ہیں
کچھ باپ کی پگڑی کو کھلا بیچ رہے ہیں
کچھ ماں کا دوپٹہ بخدا بیچ رہے ہیں
اکثر تو وہی معاملہ ہوتا ہے جو رجڑ کی مٹھائی، تخت بھائی کے کباب اور ڈیرہ اسماعیل خان کے حلوے کے ساتھ ہو رہا ہے، ایک وقت میں یہ تینوں چیزیں بڑی مشہور تھیں اور ان کی صرف ایک ہی دکان ہوا کرتی تھی ہاں مردان کے بدایونی پیڑے بھی تو ہیں لیکن اب ان شہروں کو جائیے تو کم از کم بیس اور زیادہ سے زیادہ سو دکانیں سب کے سب ’’اصلی‘‘ کے نام سے کھلی ہوئی ہیں، افغانستان کے مسئلے کے ساتھ کچھ سکھ خاندانی حکیم بھی آگئے ہیں۔
ایسی دکانیں خیبر پختون خوا کے ہر گاؤں اور شہر میں سیکڑوں دکھائی دیتی جن پر فلانا سنگھ اور فلانا سنگھ ’’خاندانی حکیم‘‘ کا بورڈ لگا ہوا ہوتا ہے، سیاست میں اور خاص طور پر پختون قیادت میں تو ان خاندانی حکیموں کی اتنی بھرمار ہے کہ آدمی گنتے گنتے تھک جاتا ہے، اب آپ ہی بتایئے کہ ’’پختون قیادت‘‘ ۔ میں توقعات اور چیلنجز کو ایک طرف کر دیجیے، یہ ہی فیصلہ نہیں ہو پا رہا ہے کہ بے چارا مریض کس خاندانی حکیم کو ’’اپنا ہاتھ‘‘ دکھائے بس یہی ہو رہا ہے کہ
رہ حیات میں کوئی تو کام آئے گا
ہر ایک گام پہ اپنے پرائے بیٹھے ہیں
ہماری باری آئی تو ہم نے سیدھا سیدھا وہ مشہور لطیفہ سنا دیا کہ کسی نے بچھو سے پوچھا کہ تم لوگوں کا سردار یا لیڈر کون ہے؟ بچھو نے کہا جس کی دم پر ہاتھ رکھ دیا وہی سردار ہے، پختون قیادت کا بھی یہی معاملہ ہے اور یہاں تو صرف ’’دم‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’دم چھلے‘‘ بھی اتنے زیادہ ہیں کہ کہیں دور جانا ہی نہیں پڑتا جو بھی کنکر پتھر اٹھایئے کوئی نہ کوئی بچھو اپنی دم اور دم چھلے کے ساتھ نکل آئے گا اور مذاکرے میں بھی سارے ہی بولنے والوں کا ایک بول تھا کہ ۔۔۔۔ ؎ کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔ کچھ وہی حالت ہے کہ
تمام شہر ہی اس کی تلاش میں گم تھا
میں اس کے گھر کا پتہ کس سے پوچھتا یارو
سعد اللہ جان برق
از مہرتا بہ ذرہ دل و دل ہے آئینہ
’’اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں‘‘ کو باقاعدہ رجسٹر کرنے کے لیے فصیح الدین نے ایک اور دیوانگی یہ کی ہوئی ہے کہ کتاب کا نام لیتا ہے اس زمانے میں، بڑے جتن کر کے اس نے ایک بڑی زبردست لائبریری قائم کی ہوئی ہے۔ نام اس کا ریسرچ لائبریری ہے اور علم و تعلیم کے ہر شعبے سے وہ کتابیں جمع کر رکھی ہے جو کسی بھی قسم کی ریسرچ سے متعلق ہو اور یہ سب کچھ اس نے اپنے پلے سے ۔
0 Comments