Peshawar

6/recent/ticker-posts

پشاور کے تاریخی دروازے

پشاور دنیا کے قدیم شہروں میں سے ایک ہے یہ ہزاروں مرتبہ اجڑا اور بسا مگر پھر بھی اس کا شمار زندہ شہروں میں ہی رہا امن کے ساتھ بسنے والے شہر موہن جودڑو اور ہڑپہ وغیرہ آج کھنڈر نظر آتے ہیں مگر پشاور جغرافیائی اعتبار سے اور شمال مغربی حملہ آوروں کا پہلا پڑائو ہونے کے حوالے سے قائم نظر آتا ہے اسے ہر دور میں قبیلوں اور تہذیبوں کے سنگم کا اعزاز حاصل رہا ہے۔ 

کابلی دروازہ 
یہ دروازہ شہر کے مغرب میں واقع ہے اس کے اندر شہر پناہ کا مشہور اور قدیم قصہ خوانی بازار ہے باہر سے اس کا راستہ افغانستان کے دارالخلافہ کابل کو جاتا ہے۔

آسامائی دروازہ 
یہ دروازہ شہر کے مشہور دروازے کابلی گیٹ سے شمال کی طرف فصیل شہر میں کچھ فاصلے پر واقع ہے۔ اس کے عین سامنے قدیم قلعہ بالا حصار ہے اس کے اندر پشاور کا مشہور صرافہ بازار ہے ۔ 

کچہری دروازہ 
دروازہ آسامائی سے فصیل شہر کے ساتھ ساتھ جاتے ہوئے جونہی ہم مشرق کی طرف مڑتے ہیں تو کچہری دروازہ آتا ہے اس دروازے کو سکھوں کے عہد میں ٹکسالی دروازہ کہتے تھے کیونکہ اس کے ساتھ ہی سکھ عہد میں سکہ ڈھالنے کی ٹکسال تھی جہاں پر سکھ عہد کا ’’نانک شاہی‘‘ سکہ ڈھلتا تھا مگر چونکہ انگریزی عہد میں بننے والی کچہریوں کو یہ راستہ جاتا ہے اس لیے یہ کچہری دروازہ کہلایا۔

ریتی دروازہ
کچہری دروازہ سے چند ہی قدموں کے فاصلے پر ریتی دروازہ کا مقام ہے اس دروازے کے اندر ریتی بازار ہے ہندکو زبان میں ’’ریتی‘‘ سوہان یا اس دروازے کو کہتے ہیں جس سے تانبے اور لوہے کے برتنوں کو رگڑ کر جلا نکالی جاتی ہے یہ ریتاں اب بھی اس بازار میں بکتی ہیں۔ 

ہتسنگری دروازہ
سنسکرت زبان میں ’’اشت‘‘ آٹ اور نگر شہر کو کہتے ہیں قدیم زمانے میں اس مقام سے آٹھ شہروں کو راستے جاتے تھے۔ یہی اشت نگر تبدیل ہو کر ہشت نگر یا ہشنگری بن گیا۔ اس دروازے کے اندر مشہور جھنڈا بازار کریم پورہ اور حضرت شادی پیر کی زیارت گاہ ہے۔

گنج دروازہ 
گنج دروازہ کے اندر ایک تاریخی مقام’’ گورگٹھری‘‘ ہے یہ نہایت ہی قدیم مقام ہے ان ایام میں یہاں خزانے ہوا کرتے تھے بدھ راجہ کنشکا کا دربار بھی اسی مقام پر تھا چونکہ خزانے اس راستے سے شہر میں آتے تھے لہٰذا اس کا نام ہر دور میں گنج دروازہ ہی رہا اس دروازے کے باہر مہاتما گوتم بدھ کا وہ مشہور پگوڈا تھا جس میں اس کی ہڈیوں کی راکھ دفن تھی اور جسے ’’شاہ جی دیاں ٹیریاں‘‘ پکارا جاتا تھا۔ 

کوہاٹی دروازہ
یہ راستہ شہر سے نکلتے ہی کوہاٹ کی طرف جاتا ہے۔ اس دروازے کے ساتھ بڑا وسیع کوہاٹی چوک ہے بارک زئی عہد کا دربار جو انگریزی عہد میں مشن ہائی سکول میں تبدیل ہو گیا تھا اب بھی موجود ہے یہاں قریب ہی ’’پری چہرہ‘‘ کا مقبرہ ہے جو ایران کے شہنشاہ نادر شاہ کی بیوی تھی۔ 

یکہ توت دروازہ
یکہ ’’یکتا سے نکلا ہے اور توت کے معنی ہیں بے نیاز پاکباز اور بڑے لوگ۔ یہاں پیروں کے آستانے اور بزرگ ہستیوں کے مدفن ہیں اس حوالے سے یہ دروازہ ’’یکہ توت‘‘ کہلایا۔ 

لاہوری دروازہ
ہتشنگری دروازے کے بعد فصیل شہر میں تقریباً 5 کلو میٹر کے بعد لاہوری دروازہ آتا ہے جیسا کہ نام سے ظاہر ہے یہ راستہ پشاور سے لاہور کو جاتا ہے اور اسے اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ 

ڈبگری دروازہ
ہند کو زبان میں ’’ڈب‘‘ چمڑے کے بنے ہوئے کپے کو کہتے ہیں جس کی شکل و صورت تو ایک بڑے مٹکے کی سی ہوتی ہے مگر جس کا دھانہ نہایت چھوٹا ہوتا ہے ان کپوں میں تیل یا گھی ڈال کر لے جایا جاتا تھا اس کے بنانے والے پیشے کے لحاظ سے ’’ڈب گر‘‘ کہلائے تھے چوک اسی دروازے کے آس پاس تھے اسی مناسبت سے یہ ڈبگری دروازہ کہلایا۔

باجوڑی دروازہ
 جیسا کہ نام سے ظاہر ہے باجوڑ کا راستہ دیر باجوڑ اور بینر وغیرہ کے علاقے کے تاجر اس مقام پر آ کر ٹھہرتے تھے اپنا مال یہیں پر بیچتے تھے اور یہاں سے مال خرید کر لے بھی جاتے تھے۔

سرکی دروازہ
سرکی سے مراد ’’مشرق‘‘ یعنی پشاور کا مشرقی دروازہ اس دروازے کی بنائوٹ کچھ اس طریقے سے ہوئی کہ صبح جب سورج کی پہلی کرن نکلتی ہے تو اس دروازے پر پڑتی ہے۔ 

رام داس دروازہ
یہ دروازہ رام داس نامی ایک شخصیت کے نام سے منسوب ہے جو کہ سکھوں کے دور میں اس علاقے کا نمبردار گزرا ہے اس دروازے کے اندر بازار رام داس بھی ہے۔ 

سرد چاہ(ٹھنڈی کھوئی) دروازہ
سرد چاہ یعنی ٹھنڈے پانی کا کنواں عہد قدیم سے اس علاقے میں تاریخی کنواں ہے غالباً یہ بدھ عہد کا ہے اس کنویں کی دیواروں پر مورتیاں بنی ہوئی تھیں۔ اس کا پانی شہر کے تمام کنوئوں سے ٹھنڈا تھا۔ قیام پاکستان تک لوگ کنویں سے پانی حاصل کرتے تھے پھر یہ بند کر دیا گیا۔ 

بارزقاں دروازہ
تاریخی طور پر یہ ثابت ہے کہ اس دروازے کی سرزمین نشیبی ہونے کی وجہ سے نالوں اور دریا کی گزر گاہ تھی جس پر ’’جندر‘‘ یعنی آٹا پیسنے کی مشین لگی ہوئی تھی مغل عہد تک سب سے بڑا سرکاری ’’جندر‘‘ بھی یہیں ہوتا تھا۔ اس دروازے کے اندر کے علاقے کو ’’آسیا‘‘ کہتے تھے جس کا مطلب ہے چکی چونکہ یہاں پر سرکاری لنگر خانوں اور عوام کو بھی آٹا ملتا تھا اور آٹے کو ہند کو زبان میں رزق سے تعبیر کیا جاتا ہے اس لیے اس دروازے کو رزق کی مناسبت سے ’’بارزقاں دروازہ‘‘ کہا گیا۔ پنج تیرتھ :’’پنج تیرتھ‘‘ پشاور کے آثار قدیمہ میں سب سے قدیم ترین آثار ہے۔

شیخ نوید اسلم

 

Post a Comment

0 Comments