پشاور شہر، جنوبی ایشیا میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔ یہ ہندوستان کا گیٹ وے تھا اور ہر نئے آنے والے حملہ آوروں کا پہلا پڑائو تھا اس لیے ہر حملہ آور نے قلعہ بالا حصارکو مسمار کیا ہو گا اور ہر مرتبہ یہ از سرنو تعمیر ہوا ہو گا۔ اس قلعہ کا واحد دروازہ ہندوستان کے راستے کے رخ پر ہے۔ ڈاکٹر احمد حسن دانی، قلعہ بالا حصار کے متعلق ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں: 630ء میں جب چینی سیاح ہیون سانگ نے پشاور کا دورہ کیا تو اس جگہ شاہی رہائشگاہ کے متعلق بات کی وہ چینی زبان کے لفظ ’’کن شنگ‘‘ کو تعریفی کلمات کے لیے استعمال کرتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ قلعے کی بلند و بالا دیواروں والا حصہ شاہی رہائش گاہ سب سے اہم اور خوبصورت مقام ہے ہیون سانگ شہر کے علیحدہ حصے کا بھی ذکر کرتا ہے جو قلعہ بند نہیں تھا لیکن حصار شہر کے مرکز میں تھا جس کی حفاظت کے لیے شہر کے گرد خندق بنی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر دانی لکھتے ہیں کہ ’’دریائے باڑہ کی گزر گاہ نے ایک اونچی جگہ کو گھیرا ہوا تھا جس میں بالاحصار اور اندر شہر واقع تھا۔ بالا حصار ایک بلند ٹیلے پر اب بھی موجود ہے جو پہاڑی مقام ہر گز نہیں بلکہ اس کو باقاعدگی سے اونچائی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ ابتداء میں شاہی رہائش گاہ قلعے کے زیریں حصے میں تھی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلعے کے چبوترے کو بلند کرنا شروع کیا گیا۔
نئی تعمیر پرانی تعمیر کے اوپر شروع کی جاتی رہی۔ اس طرح قلعے کی بلندی میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ان دنوں پشاور شہر، دریائے باڑہ کی دو شاخوں کے درمیان آباد تھا۔ اس دریا کا شمالی حصہ بالا حصار کی بنیادوں کو چھوتا ہو گا۔ جب غزنی کے امیر سبکتگین نے 988ء میں پشاور کو فتح کیا تو اس کے دس ہزار گھڑ سواروں کے ساتھ یہاں پڑائو کیا۔ سبکتگین اور اس کے گیرژن نے یقینا اس قلعے میں قیام کیا ہو گا۔ سلطان محمود غزنوی نے 1001ء سے 1008ء تک پشاور کے ہندو راجاوئوں جے پال اور انند پال کو شکست دی۔ ان راجاوئوں کی فوجوں نے بھی بالا حصار سے پشاور شہر کا دفاع کیا ہو گا، اس وقت یہ شہر دریائے باڑہ کی وجہ سے محفوظ تھا۔
پشاو کی اہمیت کے پیش نظر شہاب الدین غوری نے 1179ء میں اس قلعہ پر قبضہ کیا مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے اپنی خودنوشت ’’تزک بابری‘‘ میں قلعہ بالا حصار کا ذکر کیا ہے۔ وہ باگرام (پشاور) کے قریب اپنی فوجوں کے اترنے اور شکار کے لیے روانگی کا ذکر کرتا ہے۔ جب مغل بادشاہ ہمایوں نے افغان بادشاہ شیر شاہ سوری سے شکست کھائی تو افغانوں نے قلعہ بالا حصار کو تباہ کر دیا جب ہمایوں نے شاہ ایران کی مدد سے اپنا کھویا ہوا تخت دوبارہ حاصل کر لیا تو اس نے کابل سے واپسی پر پشاور میں قیام کیا اور قلعہ بالا حصار کو دوبارہ تعمیر کروایا اس نے قلعہ میں ایک بڑا فوجی دستہ تعینات کیا اور ایک ازبک جرنیل سکندر خان کو قلعہ کا نگران مقرر کیا۔
پہلی مرتبہ قلعے میں یہاں توپیں نصب کی گئیں۔ طبقات اکبری کے منصف نظام الدین کے مطابق 1585ء میں جب قلعہ بالاحصار آتشزدگی سے تباہ ہو گیا جس میں ایک ہزار کے قریب اونٹوں پر لدا ہوا سامان تجارت بھی ضائع ہو گیا۔ نادر شاہ درانی نے جب درہ خیبر کے راستے سے ہندوستان پر حملہ کیا تو سب سے پہلے اس نے پشاور کی وادی مغلوں سے چھین لی۔ نادر شاہ نے پشاور میں اپنا گورنر مقرر کیا جس نے قلعہ بالا حصار میں رہائش اختیار کی۔ احمد شاہ ابدالی نے بھی وادی پشاور مغلوں سے چھین لی تھی۔ احمد شاہ ابدالی کے فرزند تیمور ابدالی نے پشاور کو اپنا سرمائی دارالخلافہ بنا لیا۔ اس نے قلعہ بالا حصار میں اپنی رہائش کے لیے محلات تعمیر کروائے اور اپنے حفاظتی دستے کے لیے ایرانی اور تاجک سپاہی بھرتی کیے۔
جب 1779ء میں ارباب فیض اللہ خان نے قلعہ بالا حصار پر یلغار کی تو اسی حفاظتی دستے نے تیمور شاہ کی حفاظت کی۔ 1793ء میں تیمور شاہ کی وفات کے بعد شاہ زمان آیا۔ اس کے دور میں سکھ پنجاب پر قابض ہو گئے۔ 1834ء میں سکھوں نے پشاور پر قبضہ کر لیا پہلے تو سکھوں نے قلعہ بالا حصار کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن جلد ہی انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ ہری سنگھ نلوہ اور سردار کھڑک سنگھ نے اس قلعہ کی اہمیت کے پیش نظر اسے دوبارہ تعمیر کرایا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم پر شیر سنگھ نے قلعہ بالا حصار کچی اینٹوں سے بنوایا اور اس قلعے کا نام سمیر گڑھ رکھا۔ سکھوں کے دور کی ایک لوح آج بھی قلعہ بالا حصار کی مرکزی دیوار میں نصب دیکھی جا سکتی ہے۔
سکھوں کے زوال کے بعد 1849ء میں پنجاب اور صوبہ خیبرپختونخوا پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا اس وقت قلعہ بالا حصار کی دیواریں کچی اینٹوں اور گارے سے اٹھائی گئی تھیں۔ انگریزوں نے ان دیواروں کو گرا کر پختہ اینٹوں سے قلعے کی دیواریں تعمیر کیں اور قلعے کے اندر فوجیوں کے لیے بیرکیں بنائیں۔ اس وقت برطانوی گیرژن قلعہ کے اندر تھا قیام پاکستان کے وقت برطانوی ہند کی فوج کا ایک دستہ قلعہ بالا حصار میں مقیم تھا دسمبر 1948ء میں قلعہ بالا حصار میں فرنٹیئر کور کا ہیڈ کوارٹر قائم کیا گیا۔ پشاور کا قلعہ ’’بالا حصار‘‘ شیر شاہ سوری کی بنائی جرنیلی سڑک کے کنارے آج بھی سینہ تانے کھڑا ہے۔
0 Comments